Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

عشرت جہاں لان میں چیئر پر بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر اداسی تھی۔بہو اور ان کا بیٹا امریکا میں سیٹل ہو گئے تھے بچوں کو لے کر اور وہ جو سوچ رہی تھیں  وہ چند ماہ کیلئے گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر گھر میں چہل پہل ہو جائے گی  وہ تنہائی کی اذیت سے بھی نکل آئیں گی مگر آج آنے والی کال نے ان کے حوصلے توڑ کر بکھیر دیئے تھے  وہ سوچ رہی تھیں  ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس اولاد کی خاطر ماں اپنی زندگی تج دیتی ہے  اپنی خوشیوں  ارمانوں اور خواہشوں 
عشرت جہاں لان میں چیئر پر بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر اداسی تھی۔بہو اور ان کا بیٹا امریکا میں سیٹل ہو گئے تھے بچوں کو لے کر اور وہ جو سوچ رہی تھیں  وہ چند ماہ کیلئے گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر گھر میں چہل پہل ہو جائے گی  وہ تنہائی کی اذیت سے بھی نکل آئیں گی مگر آج آنے والی کال نے ان کے حوصلے توڑ کر بکھیر دیئے تھے  وہ سوچ رہی تھیں  ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس اولاد کی خاطر ماں اپنی زندگی تج دیتی ہے  اپنی خوشیوں  ارمانوں اور خواہشوں کو پس پشت ڈال کر اپنے بچوں کی خوشیوں کو ان کی خواہشوں کو پورا کرنا اپنا مقصد بنا لیتی ہے  ان کی انگلی تھام کر عمر کے سالوں کو زینہ بہ زینہ عبور کرتی ہے اور جب وہ ننھا سا پودا تناور درخت بن جاتا ہے تو وہ اس کے پھل اور سائے سے بھی محروم کر دی جاتی ہے اور وہ ہاتھ جو کل تک ماں کی انگلی پکڑ کر شانہ بشانہ چلے تھے  وقت اڑان میں اتنا اونچا اڑتے ہیں کہ پھر سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے۔
(جاری ہے)

محبت  رشتے  تعلق اور احساسات!

احساسات جو رشتوں کو مضبوط کرتے ہی  دلوں کو جوڑتے ہیں  محبتوں کو جاوداں کرتے ہیں۔

”پھر ایسا کیوں ہوتا ہے…؟ انگلی پکڑ کر چلنے والے قوی ہوتے ہیں تو سہارا کیوں نہیں بنتے… دامن کیوں چھڑا لیتے ہیں… نگاہیں کیوں پھیر لیتے ہیں؟“

”السلام علیکم ممی! کیا سوچا جا رہا ہے اتنی گہرائی سے کہ آپ کو میرے آنے کی خبر بھی نہیں ہوئی؟ میں گیٹ سے آپ کو دیکھتی ہوئی آ رہی ہوں۔
“ خلاف توقع مثنیٰ کو سامنے پاکر وہ کھل سی اٹھی تھیں۔

”ارے مثنیٰ! تم کس کے ساتھ آئیں؟“ وہ ان کی پیشانی چوم کر گویا ہوئیں۔

”ڈرائیور چھوڑ کر گیا ہے۔“ وہ ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔

”تم کیا یہاں رکنے آئی ہو؟“ وہ ان کے ساتھ آئے سوٹ کیس کو دیکھ کر گویا ہوئیں۔ ان کے لہجے میں پریشانی تھی  جس کو مثنیٰ نے بخوبی نوٹ کیا تھا۔

”جی ممی!“ وہ سنجیدگی سے بولیں۔

”خیریت تو ہے ناں! فیاض سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تمہارا پھر سے…؟“ نامعلوم کس خیال میں وہ صفدر جمال کی جگہ فیاض کا نام لے بیٹھی تھیں۔

”نہیں… میں آپ کی تنہائی کے خیال سے آ گئی ہوں۔“ وہ جو ممی کو تھوڑا سا تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی  ان کے منہ سے نکلنے والے اس نام پر نہ صرف ان کے دل کی دنیا زیرو زبر ہوئی تھی بلکہ ساری شوخی بھی ہوا ہو گئی تھی۔

”اوہ! یہ کیا نام نکل گیا میرے منہ سے؟“ شرمندہ ہو کر انہوں نے بیٹی کی طرف دیکھا مگر اس لمحے تک خود کو سنبھال چکی تھیں۔ے

”آپ کیا سوچ رہی تھیں ممی!“ انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔

”یہی کہ جن بچوں کی انگلیاں پکڑ کر ہم چلنا سکھاتے ہیں  جب عملی زندگی میں وہ دوڑنے لگتے ہیں تو پھر ہماری طرف سے کیوں غافل ہو جاتے ہیں؟“

”بس  یہ دنیا کا چلن ہے کہیں ہم انگلی پکڑتے ہیں تو کہیں انگلی چھڑا بھی لیتے ہیں  مجھے بھائی جان نے کال کی تھی کہ وہ پاکستان واپس نہیں آ رہے ہیں۔
مجھے آپ کی فکر ہوئی کہ آپ اس خبر سے پریشان ہو گئی ہوں گی اس لئے میں آپ کے پاس آ گئی۔

”صفدر آفس سے آتے تو ان کے ساتھ ہی آ جاتیں۔“ بیٹی کو قریب دیکھ کر وہ خاصی مطمئن دکھائی دینے لگی تھیں۔

”صفدر تو بزنس کے سلسلے میں فرانس کئے گئے ہیں پھر وہاں سے نئے پروجیکٹ کیلئے مشینری وغیرہ بھی خریدیں گے اور بزنس کے ہی حوالے سے کچھ دوسرے کام بھی ہیں۔
ایک ڈیڑھ ماہ لگے گا ان کا وہاں اور یہ سارا عرصہ میں آپ کے ساتھ یہاں رہ کر گزاروں گی  خوش ہو جائیں آپ۔“

”شکر ہے تم خوشی خوشی رہنے آئی ہو ورنہ میں تو ڈر گئی تھی کہ صفدر سے پھر کوئی کھٹ پٹ ہو گئی ہے تمہاری۔“ طمانیت بھرے انداز میں انہوں نے اپنے دل کی بات کہہ دی۔

”ممی! ایسا کیوں ہوتا ہے  جو گھر شادی سے پہلے لڑکی کیلئے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہوتا ہے  وہ شادی کے بعد اتنا ہی پرایا اور دور کیوں ہو جاتا ہے؟ یاد ہے آپ کو کبھی میں ایک دن آنٹی کے ہاں ٹھہر جاتی تھی تو دوسری صبح ہی آپ اور بابا مجھے لینے پہنچ جاتے تھے اور پھر دنوں تک مجھے اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے؟“ ان کی مسکراہٹ میں گزرے دنوں کی یادیں تھیں۔
”اور آج آپ مجھے سوٹ کیس کے ساتھ آتے دیکھ کر گھبرا گئی تھیں کہ میں گھر چھوڑ کر تو نہیں آ گئی ہوں۔“

”تم نے خود دیکھ لیا ناں! کل اور آج کا تضاد… بیٹیاں کنواری ہوں تو گھر کی رونق ہوتی ہیں اور جب سسرال چلی جائیں تو وہاں کی زینت بن جاتی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ شادی کے بعد بیٹیاں اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔“

گھبرایئے مت ممی! میں بھی صفدر کے آتے ہی چلی جاؤں گی۔
“ وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئیں تو عشرت جہاں بھی ہنس دیں۔

”بلکہ میں چاہوں گی صفدر ایک کے بجائے دو ماہ میں آئیں تو اچھا ہے۔ میں اس قید تنہائی سے اس بری طرح گھبرا گئی ہوں کہ بیان نہیں کر سکتی ہوں۔ تم یہ نمکو لو  میں تازہ چائے منگواتی ہوں تمہارے لئے۔“ وہ نمکو کی پلیٹ ان کے آگے رکھتے ہوئے ملازمہ کو چائے لانے کا آرڈر دینے لگی تھیں اور ملازمہ تیزی سے اندر چلی گئی۔

”ممی! پری کو یہاں آئے ایک عرصہ ہو گیا ہے  آج کال کرکے بلوا لیں۔“

”آج ہی کال کی تھی میں نے…“

”پھر… وہ آئی نہیں؟“

”ملازمہ نے کال ریسیو کی تھی  وہ بتا رہی تھی فیاض کی بیٹی کے سسرال والے آئے ہیں  وہ نہیں آ سکے گی۔“

”فیاض کی بیٹی کے سسرال والے…؟ ممی! اس کی بیٹیاں پری سے چھوٹی ہیں پھر ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ میری پری سے پہلے ان لڑکیوں کے رشتے طے کریں؟ یہ تو سراسر میری بیٹی کو کمپلکس میں مبتلا کرنا ہے  اس کو یہ احساس دلانا ہے کہ دیکھو تمہاری ماں اس گھر میں نہیں ہے تو تمہارا حق دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
“ مثنیٰ غصے سے سرخ ہو گئی تھیں  جب کہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے عشرت جہاں انکار میں گردن ہلاتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”ارے تم خوامخواہ اس بدگمانی کو دل میں جگہ مت دو۔ دراصل اس کی بیٹی عادلہ پری سے ایک سال ہی تو چھوٹی ہے پھر ماشاء اللہ ان کی اٹھان اچھی ہے۔ پری سے دونوں بیٹیاں بڑی دکھائی دیتی ہیں۔“

”میں ان باتوں سے بہلنے والی نہیں ہوں ممی! میں جانتی ہوں کہ پری کو میری بیٹی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے  جان بوجھ کر اس کو ہرٹ کیا جا رہا ہے۔
میں فیاض سے بات کروں گی  وہ میری بیٹی کے ساتھ اس طرح نا انصافی کرکے اسے تماشا نہیں بنا سکتا ہے۔“ انہوں نے ماں کی تسلی کو رد کر دیا۔

”تم… تم بات کرو گی فیاض سے؟“ وہ حیران ہوئیں۔

”جی! اپنی بیٹی کے حق کیلئے میں یہ ناپسندیدہ کام بھی کروں گی مگر اس کے ساتھ یہ زیادتی ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔

”پری کو آنے دو  حقیقت اس سے معلوم ہو جائے گی۔
مجھے یقین ہے اس میں فیاض کی کوئی غلطی نہیں ہو گی۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوئی تھیں۔

###

رات کا نامعلوم کون سا پہر تھا اور وہ جاگ رہی تھی۔ برابر میں لیٹی دادی جان گہری نیند میں گم تھیں اور وہ دائیں کروٹ کے بل لیٹی سوچ رہی تھی۔

”یہ خواب تھا یا حقیقت… عائزہ نے گھر چھوڑنے کی اتنی گھٹیا حرکت کیوں کی؟“

”حرکت!“ اس کے اندر سے استہزائیہ آواز ابھری تھی۔
”وہ چلی گئی تھی لیکن شاید دادی جان کی پڑھی سورتوں کا حصار کام آ گیا جو وہ بھاگ کر بھی نہ بھاگ سکی تھی اور طغرل نے اس کو عین موقع پر پکڑ لیا تھا جب وہ راحیل کے ساتھ کار میں بیٹھنے ہی والی تھی۔ اس کو آتا دیکھ کر راحیل کار پوری رفتار میں لے کر بھاگ گیا تھا  اس نے عائزہ کی بھی پروا نہ کی تھی البتہ وہ سوٹ کیس اس نے اپنے پاس ہی رکھا تھا جس میں زیورات  نقدی اور کپڑے تھے۔
عائزہ نے بیٹھنے سے پہلے وہ اندر رکھ دیا تھا۔ یہ سب واقعہ طغرل نے اس کو محتاط انداز میں بتا دیا تھا کہ وہ معاملے کی سنگینی سے واقف ہو کر عائزہ کی نگرانی بھرپور طریقے سے کر سکے۔ حقیقت جان کر اس کے قدموں تلے کی زمین نکل گئی تھی۔“

”اگر وہ چلی جاتی تو پھر پاپا اور دادی جان کا کیا ہوتا؟“ اس خیال نے اس کی نیند اڑا دی تھی اور وہ سوچ رہی تھی۔
اللہ نے کتنا کرم کیا ہے ان پر  ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرکے… رہ رہ کر اس کو اس بات پر بھی افسوس تھا کہ کچھ عرصے قبل ہی طغرل نے کہا تھا رات کے اندھیرے میں اس نے کسی لڑکی کو سیاہ چادر میں نیچے لان میں دیکھا ہے اور تب اس نے اس بات کا مضحکہ اڑایا تھا اور طغرل پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس وقت نشے میں ہوگا اور آج وہ یہ سوچ کر شرمندہ تھی کہ کسی پر الزام لگا دینا کسی کا مذاق اڑانا کتنا سہل ہوتا ہے۔
جب ہم کسی کی جانب انگلی اٹھاتے ہیں تو باقی انگلیاں خود ہماری طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔

”پری… او پری! کیا نماز قضا کرنے کا ارادہ ہے جو اٹھنے کا نام نہیں لے رہی ہو؟ چلو اٹھو شاباش! نماز پڑھ لو  پھر سو جانا۔“ نامعلوم کس پہر وہ نیند کی آغوش میں سر رکھے سو گئی تھی  دادی کے بار بار اٹھانے پر اٹھی تو لمحے بھر غنودگی کی کیفیت میں رہی تھی پھر ایک دم ہی حواس خمسہ نے کام کرنا شروع کیا تھا۔
رات کے تمام واقعات پے در پے پے یاد آنے لگے تو وہ چوکنا ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ ”جلدی سے آ جاؤ نماز پڑھ کر آرام سے سونا پھر۔“ اس کو بیدار دیکھ کر دادی اطمینان سے کمرے سے چلی گئی تھیں۔ وہ وضو کرنے چلی گئی تھی اور نماز پڑھ کر اس نے رو رو کر دعا مانگی تھی  عائزہ کے راہ راست پر آنے کی… اس گھر کی عزت و حرمت کی سلامتی کی… نامعلوم کتنی دیر تک وہ دعائیں مانگتی رہی تھی۔

ناشتے پر سب ہی موجود تھے۔ اس نے محسوس کیا عائزہ کے چہرے پر رات والے واقعے کی کوئی شرمندگی اور خجالت نہ تھی۔ وہ عام دنوں کی طرح ہنستے  مسکراتے ہوئے ناشتہ کرنے میں مگن تھی۔

”پری! کیا سوچ رہی ہو  ناشتہ نہیں کرو گی؟“ دادی کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی اور سلائس پر جیم لگانے لگی۔ صباحت نے کسی خیال سے اس کو گھور کر دیکھا تھا۔
عادلہ اور عائزہ کی نگاہیں بھی اس کی طرف اٹھی تھیں  جو نگاہیں جھکائے ناشتہ کرنے میں مگن تھی۔ طغرل نے بھی کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

”طغرل بھائی!“ پری نے اس کو پکارا تھا  اس کو کمرے سے جاتے دیکھ کر… وہ جو دادی جان سے ملنے آیا تھا اور ان کو وہاں نہ پا کر وہ جا رہا تھا  پری کی آواز پر ٹھٹک کر رک گیا تھا۔ ”طغرل بھائی… میں شرمندہ ہوں  اس دن میں نے آپ کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔
“ وہ دھیمے لہجے میں گویا تھی۔

”کس دن… کون سی بات؟“ وہ حیران ہوا۔

”اس دن جو آپ نے مجھے بتایا تھا کہ رات کو آپ نے کسی لڑکی کو گھر سے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور آپ کو وہ ملی نہیں تھی وہ عائزہ ہی تھی جس کو آپ پہچان نہیں سکے تھے اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ…“

”اوہ سمجھا! جو آپ سمجھی تھیں میں کسی شے کی حالت میں بہکا ہوا تھا؟“ اس کا انداز کافی سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔

”آئی ایم سوری طغرل بھائی! مجھے بالکل بھی آئیڈیا نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے  عائزہ ایسی حرکت کر سکتی ہے۔ وہ اس پر پوزل پر بہت خوش تھی  اس کی کسی بھی حرکت سے ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے یا کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے۔“ طغرل نے اس گھر کی عزت بچائی تھی۔ اس کے باپ کی پگڑی کی حفاظت کی تھی اگر وہ یہ سب نہ کرتا تو… آج گھر میں آگ لگی ہوتی اور نامعلوم کتنے رشتے کھو چکے ہوتے  وہ دل سے طغرل کی شکر گزار تھی۔
یہی وجہ تھی کہ طغرل سے ساری کبیدگی و دشمنی اس نے ختم کر دی تھی۔

”میں تم سے ناراض نہیں ہوں پری! تم مجھ کو تھینکس مت کہو  یہ میرا فرض تھا اس گھر کی عزت مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔“ خلاف معمول وہ رات سے بہت زیادہ سنجیدہ تھا اور اس وقت بھی وہ اسی طرح نظر آ رہا تھا کسی سوچ کی گہرائی میں ڈوبا ہوا تھا۔

”دادی جان کہاں ہیں؟“

”وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔“

”اوکے میں نے جو تم سے کہا ہے اس کا خیال رکھنا۔“ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ایک عجیب سی پژمردگی اس کے چہرے پر چھائی ہوئی تھی۔

”میرا خیال ہے وہ اب ایسی حرکت نہیں کرے گی طغرل بھائی!“

”مجھے اس پر یقین نہیں ہے۔“ وہ کہہ کر باہر نکل گیا۔

   2
0 Comments